Welcome to the Forum..

You are currently viewing our boards as a Guest which gives you limited access to view most discussions and access our other features. By joining our free community you will have access to post topics, communicate privately with other members (PM), respond to polls, upload content and access many other special features. Registration is fast, simple and absolutely free so please, join our community today!

If you have any problems with the registration process or your account login, please contact us.

Join the forum, it's quick and easy

Welcome to the Forum..

You are currently viewing our boards as a Guest which gives you limited access to view most discussions and access our other features. By joining our free community you will have access to post topics, communicate privately with other members (PM), respond to polls, upload content and access many other special features. Registration is fast, simple and absolutely free so please, join our community today!

If you have any problems with the registration process or your account login, please contact us.
Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

You are not connected. Please login or register

خلیجی ریاستیں:مستقبل کے چیلنجوں کی تیاری -

3 posters

Go down  Message [Page 1 of 1]

Creative-Art

Creative-Art
*Administrator*
*Administrator*

خلیجی ریاستوں کی معیشت میں ترقی کی بنیاد تیل ہے جس نے یہاں کی دنیا ہی بدل ڈالی۔ لیکن اب خلیجی ممالک کی حکومتوں کو احساس ہوگیا ہے کہ تیل کے ختم ہونے کی صورت میں بھی انہیں اپنی معیشت کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔

متحدہ عرب امارات ان ریاستوں میں سے ایک ہے جس نے ایک پراجیکٹ شروع کیا ہے اور اس کے تحت ایک مثالی اور ماحول دوست گرین سٹی بنانے کے لیے سولہ ارب ڈالر کی رقم خرچ کررہا ہے۔

اس پروجیکٹ کا نام مُصدّر رکھا گیا ہے جس کے عربی میں معنی ذریعہ کے ہوتے ہیں۔ اس شہر کی ہوا میں کاربن کی مقدار صفر رکھنے کا منصوبہ ہے۔

یہ ایک ایسا پراجیکٹ ہے جس پر آنے والی لاگت بہت کم ممالک برداشت کر سکتے ہیں۔ یہ دنیا کے امیر ترین ممالک ہیں تاہم ان کے پاس بے تحاشہ دولت کے باوجود ان سے جو توقع کی جا سکتی ہے پوری ہوتی نظر نہیں آر ہی۔

لیکن کامیابی کی چند داستانیں بھی یہاں رقم کی گئی ہیں۔ دبئی کے وسط سے کوئی بیس منٹ کی مسافت پر ہائی وے سے ذرا ہٹ کے صحرا کے درمیان ایک شیشے کے عمارت کھڑی ہے۔ یہ کسی عام آفس کی عمارت سے مختلف نہیں لیکن اس مقام پر یہ ریت پر تنہا موجود ہے۔

یہ عمارت پیسیفِک کنٹرول کی ملکیت ہے۔ عمارت کے اندر کمپنی کا گلوبل کمانڈ کنٹرول سسٹم ہے۔ ایک وسیع و عریض کمرہ جس میں درجنوں افراد اپنے کمپیوٹروں کی سکرین کو تک رہے ہیں جن میں کبھی نقشے ابھر رہے ہیں تو کبھی روشنیوں کے جھماکے ہو رہے ہیں۔

یہاں سے وہ دبئی کے طول و عرض میں اور باہر وائرلیس ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ہزاروں عمارتوں کی نگرانی کرتے ہیں۔

وہ یہاں سے آگ کے خطرات، تیکنیکی مسائل اور توانائی کے استعمال کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے نظر رکھتے ہیں۔ یہ واقعی ایک انتہائی منفرد کام ہے اور یہ کمپنی اپنے کام کا پھل پا رہی ہے اور ترقی پر ترقی کررہی ہے۔

ہر خلیجی ریاست کے ہاں ایک ٹیکنو پارک یا سائنسی اور تحقیقی شہر یا معلوماتی گاؤں موجود ہے۔ یہ ریاستیں اپنے خطے کو تحقیق کا مرکز بنانے کے لیے دولت لُٹا رہی ہیں، اور ایک ایسی جگہ بنانے پر تُلی ہیں جہاں لوگ تخلیقی کام اور ایجادات کر سکیں۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتوں کو متاثر کن پراجیکٹس میں سرمایہ کاری سے آگے بھی جانا ہوگا، دیرپا ماحول دوست نظام تخلیق کرنے کے لیے جس کی ضرورت ہے۔

اس کے لیے وقت چاہیے اور وقت ہی دولت ہے خاص طور پر جب یہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار شروع کیا جارہا ہو۔

چھبیس سالہ امِ حبیب چھ ماہ قبل متحدہ عرب امارات آئی ہیں اور دنیا میں عربی زبان کی سب سے بڑی ڈیجیٹل پبلشر کمپنی بنانا چاہتی ہیں۔ تاہم انہوں نے چھوٹے پیمانے پر اپنا کاروبار شروع کیا ہے۔

ان کے بقول ’اس خطے میں تیزی سے جاری ترقی میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ہاتھ ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار شروع کرنے والوں کے لیے نظام میں گنجائش موجود ہے تاہم یہ مشکل ضرور ہے۔

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ صبر ضروری ہے۔ یہاں معیشتیں ابھی ابھر رہی ہیں اور حکومتوں کو اپنے جدید پراجیکٹس کو دوام دینے میں ابھی وقت چاہیے۔

گلوبل اننوویش انڈیکس کے ایک مصنف کریم صباغ کا کہنا ہے کہ اس خطہ میں معاشی ترقی کے عمل کا آغاز خاصی دیر سے ہوا ہے اور ایک ہی دہائی میں اس نے وہ ترقی کی ہے جو تین سے چار دہائیوں میں کی جاتی ہے۔

ان کے بقول ’مجھے امید ہے کہ اگلے تین سے پانچ برس میں یہ خطہ اس مقام پر پہنچ جائے گا جہاں سے وہ ترقی کے منازل تیزی سے طے کرنا شروع کردے گا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہاں اداروں کو مستحکم ہونے میں وقت صرف ہوگا۔‘

تیل پیدا کرنے والی ریاست ابوظہبی کے لیے سرمایہ کاری کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اس کے نتائج کو دیکھنے کے لیے ابھی اسے مزید چند سال انتظار کرنا ہوگا۔

http://www.dreamzworld.forumotion.com

ERUM ALI

ERUM ALI
*Administrator*
*Administrator*

خلیجی ریاستیں:مستقبل کے چیلنجوں کی تیاری - 902549

Hassan Ali

Hassan Ali
*V.I.P*
*V.I.P*

very nice sharinngssss...................

Sponsored content



Back to top  Message [Page 1 of 1]

Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum