کہاں گئے
صدیق ؓو فاروقؓ کہلانے والے کہاں گئے
وہ حیدرؓ و غنیؓ بن جانے والے کہاں گئے
اب کوئی بلالؓ پھر اَحد اَحد کیوں نہیں کہتا
پتھروں کو آذان سنانے والے کہاں گئے
کوئی فارس سے یثرب کا راہی نہیں رہا
وہ مصیبتوں پہ مسکرانے والے کہاں گئے
عجب تھے خود اور عجب تھا خدا پہ بھروسہ
بحرِ ظلمات میں اُتر جانے والے کہاں گئے
وہ پراسرار بندے، وہ خودی کے بھیدی
وہ کشتیاں اپنی جلانے والے کہاں گئے
کچی عمر کے وہ سرفروش اب کیا ہوئے
داہری غرور خاک ملانے والے کہاں گئے
گھوڑے کی پیٹ پر عمر جن کی گزری تھی
وہ غلاموں کو ایاز بنانے والے کہاں گئے
دیوی دیوتا جن کے نام سے لرزاں تھے
سب صنم کدے مٹانے والے کہاں گئے
لہرا کر اسلام کا جھنڈا ، توڑا سحر کلسیا کا
القدس آزاد کرانے والے کہاں گئے
نکیل ڈالی تھی یورپ کے وحشیوں کو
وہ زنگی و ایوبی کہلانے والے کہاں گئے
وہ پارسا، وہ سچے میرے چاروں امام
ماتھے پر محراب سجانے والے کہاں گئے
حیران ہو کر اُنہیں ڈھونڈتا ہوں آصفؔ
مجھ کو مسلماں بنانے والے کہاں گئے