دیکھا تو سب خیال کے منظر بدل گئے
یعنی ہمیں نکال کے منظر بدل گئے
تیرہ شبوں کے زہر میں لپٹے ہوئے سے خواب
جھولی میری میں ڈال کے منظر بدل گئے
جس وقت فراز خون کا سرطان بن گیا
وہ لمحے ، وہ وصال کے منظر بدل گئے
اقرار کے مقام پہ وہ جب مُکر گیا
انکار کو سنبھال کے منظر بدل گئے
مُٹھی میں خواب،یادوں کی راکھ سی بتول
میری طرف اُچھال کے منظر بدل گئے
یعنی ہمیں نکال کے منظر بدل گئے
تیرہ شبوں کے زہر میں لپٹے ہوئے سے خواب
جھولی میری میں ڈال کے منظر بدل گئے
جس وقت فراز خون کا سرطان بن گیا
وہ لمحے ، وہ وصال کے منظر بدل گئے
اقرار کے مقام پہ وہ جب مُکر گیا
انکار کو سنبھال کے منظر بدل گئے
مُٹھی میں خواب،یادوں کی راکھ سی بتول
میری طرف اُچھال کے منظر بدل گئے