ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام! وائے تمنائے خام
پیر حرم نے کہا سن کے مری رویداد
پختہ ہے تیری فغاں ، اب نہ اسے دل میں تھام
تھا اَرِ نیِ وگو کلیم ، میں اَرِنی گو نہیں
اس کو تقاضا رو، مجھ پہ تقاضا حرام
گرچہ ہے افشائے راز، اہلِ نظر کی فغاں
ہو نہیں سکتا کبھی شیوۂ رندانہ عام
حلقۂ صوفی میں ذکر ، بے نم بے بو سوز و ساز
میں بھی رہاتشنہ کام ، تو بھی رہا تشنہ کام
عشق تری انتہا ، عشق مری انتہا!
تو بھی ابھی نا تمام ، میں بھی ابھی نا تمام
آہ! کہ کھویا گیا تجھ سے فقیری کا راز
ورنہ ہے مالِ فقیر ، سلطنتِ روم و شام